ہمارا بندہ جن جن عبادات سے ہمارا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت ہمیں اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں جو ہم نے اس پر فرض کی ہے اور ہمارا بندہ نوافل کی ادائیگی سے ہمارے اتنے قریب ہو جاتا ہے کہ ہم اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب ہم اس سے محبت کرتے ہیں تو ہم اس کا کان بن جاتے ہیں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتے ہیں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتے ہیں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتے ہیں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر ہم سے مانگتا ہے تو ہم اسے دیتے ہیں وہ اگر پناہ طلب کرتا ہے تو اسے پناہ دیتے ہیں اور ہمیں کسی کام میں جسے کرنا چاہتے ہیں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اپنے مسلمان بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے وہ تو موت کو (بو جہ تکلیف جسمانی)برا سمجھتا ہے اور ہمیں بھی اسے تکلیف دینا ناگو ار گزرتا ہے ‘‘ .... ﴿وضاحت:ایک حدیث میں ہے کہ ہم اپنے بندے کا دل بن جاتے ہیں جس سے وہ سمجھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتے ہیں جس سے وہ گفتگو کرتا ہے یعنی جب بندہ اﷲتعالیٰ کی عبادت میں غرق ہوجاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچتا ہے تو اس کے حواس ظاہری اور باطنی سب شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ، زبان اور دل و دماغ سے وہی کام لیتا ہے جس میں اﷲتعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے اس سے خلافِ شریعت کوئی کام سرزد نہیں ہوتا ﴾
897۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اﷲتعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتے ہیں اور جو اﷲتعالیٰ سے ملنے کو براسمجھتا ہے تو اﷲتعالیٰ بھی اس سے ملنے کو برا جانتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:۔’’ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:۔’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ مومن کے پاس جب موت آرہی ہوتی ہے تو اسے اﷲتعالیٰ کی طرف سے رضامندی اور اس کی سرفرازی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ وہ اس وقت ان انعامات سے زیادہ جو اسے آگے ملنے ہوتے ہیں کسی دوسری چیز کو پسند نہیں کرتا اس لئے وہ اﷲتعالیٰ سے ملنے کی جلد آرزو کرتا ہے اور اﷲتعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں اور جب کافر کی موت کا وقت آتا
|