تفسیر 2:280 ﴾
370۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ دو رکعتیں پڑھ لو۔ میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیا اور کچھ زیادہ بھی دیا ‘‘(عن جابر رضی اللہ عنہ )﴿وضاحت: احسان کا بدلہ نہیں ہے مگر احسان۔ اسلئے قرض ادا کرتے وقت اگر ممکن ہو تو کوئی تحفہ وغیرہ دے دیا جائے تو بہتر ہے جو پہلے سے طے نہ ہو﴾
371۔ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ کے والد احد کے دن شہید ہوئے وہ قرضدار تھے قرض خواہوں نے اپنے قرض کیلئے تقاضا کیا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے کہا باغ میں جتنی کھجوریں ہیں وہ سب لے لو باقی قرض معاف کر دو انہوں نے نہ مانا آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ کا میوہ ان کو نہ دیا اور مجھ سے یہ فرمایا صبح کو میں تمہارے باغ میں آؤں گا (قرض خواہوں کو بلوا لینا) پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ باغ میں چکر لگایا اور اسکے پھل میں برکت کی دعا فرمائی۔ پھر میں نے جو کھجور کاٹی تو سب کا قرض ادا ہوگیا اور کچھ بچ بھی گئی۔
372۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں (قرض سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ) یوں مانگتے تھے :
اَ للّٰھُمَّ اِ نِّیْ اَ عُوْ ذُ بِکَ مِنَ ا لمَاْ ثَمِ وَ ا لْمَغْرَ مِ
’’یا اﷲ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں گناہ سے اور قرض سے‘‘۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کیا و جہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے بہت پناہ مانگا کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بو لتا ہے اور و عدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔
(عن عائشہ رضی اللہ عنہا )
373۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص (اپنے انتقال کے وقت) مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے گا اور جو قرض چھوڑ جائے تواس کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ‘‘ (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)﴿وضاحت: یعنی میت کا قرض بیت المال سے بھی ادا کیاجاسکتا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت تھی﴾
|