Maktaba Wahhabi

123 - 158
اگر ایک طالب دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم بھی اس نیت سے حاصل کرے کہ دین کا کام بہتر انداز سے ہو سکے تو درست ہے ۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ خلوص کا فقدان ہے ہم میں بھی مدرسین میں بھی اور جو مہتمم ہیں مدارس کے ان میں بھی اورطلبا میں بھی ،دیگر مذاہب میں ایسا نہیں ،ان کا ایک نظم ہے اس نظم کے تحت چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ دینی مسائل میں استاد قابل ہونا چاہئے جب استاد کی دینی علوم میں صحیح دسترس نہ ہوگی تو وہ بچوں کو کیا تعلیم دے گا اور ان کے دلوں میں دین کا کیا شوق پیدا کرے گا ۔۔ والدہ کی نصیحت کے مطابق آٹھ سال مسلسل جمعہ اپنے گاؤں آکر پڑھایا [معلوم ہو اکہ والدین کی نصیحت پر عمل ہر حال میں کرنا چاہئے،از مرتب ] علما میں علم کی پختگی ضرور ہونی چاہئے ایک بات یاد آئی کہ اس وقت ایک فتنہ وباء کی طرح پھیل چکا ہے یہ ڈاکٹری(پی ایچ ڈی)کافتنہ ہے ڈاکٹر کیسے بنتے ہیں ؟لوگوں کو رکھ لیتے ہیں محنت وہ کرتے ہیں کتابیں وہ لکھتے ہیں نام ان کا چلتا ہے ڈاکٹر بن جاتے ہیں اکثر اس طرح ہوتا ہے الا ماشاء اللہ ۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ جماعتی سرگرمیوں میں پڑنے سے علم کا نقصان ہوتا ہے میں چاہتا تھا کہ علمی کام کیا جائے تاکہ آثار باقی رہ جائیں ۔۔۔آج کے طلبا کومیں یہی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پہلے اپنی تعلیم کو مکمل کریں بعد میں کچھ اور کریں فتح الباری میری پسندیدہ کتاب ہے اس کا میں نے اتنا مطالعہ کیا ہے کہ جیسے مجھے حفظ ہو چکی ہو ۔فتح الباری میں وہ مسائل ذکر ہوئے ہیں کہ جو عام کتابوں میں نہیں ہیں۔۔۔استاد نے جو کتاب پڑھانی ہو پہلے خود اس کی تیاری کرے ۔ہمارے شیخ حافظ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :’’استاد کو پڑھانے والے شاگرد ہوتے ہیں ۔‘‘ (ضیائے حدیث لاہور نومبر ۲۰۱۳ء ص:۶۴تا۶۹) ان باتوں سے ہمیں سو فیصد اتفاق ہے دین کو ترجیح دینا بہت ہی ضروری ہے۔
Flag Counter