علیحدہ با رہ نقیب مقرر کئے۔اس حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَا قَ بَنِٓیْ اِسْرَآئِ یْلَ ج وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ ﴾( المائد ہ:۱۲) اور اللہ نے بنی اسر ائیل سے پختہ عہد لیا،اور ان میں بارہ نقیب(سردار) مقرر کئے اورفر ما یا: میں تمہارے سا تھ ہوں،اگر تم نے نما ز قا ئم کی اور زکا ۃ اداکی اورمیرے رسو لوں پر ایما ن لا کر ان کی مدد کرتے رہے۔ یہاں بھی میثا ق میں دو سر ے و عدوں کے سا تھ ساتھ نما ز کی پابندی اورزکاۃ ادا کر نے کو اپنی مدد و نصرت کے لیے شرط قر اردیا ہے،جس طر ح بنی اسر ائیل کیلئے نمازو زکا ۃ کا حکم ایک سا تھ ہے اسی طر ح اس امت کو بھی دو نوں کا ایک ساتھ حکم دیا،اور تقر یبا ً اکیس مقا مات پر ’’ اَقَامَ الصَّلَاۃَ وَ آ تیَ الزَّکاَۃَ ‘ یا ’’اَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآ تُوْا الزَّکَاۃَ‘‘یا ’’وَالْمُقِیمِیْنَ الصَّلَاۃَ وَالْمُؤُ تُوْنَ الزَّکاَۃ ‘‘یا’’ یُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃ ‘‘ یا ’’ یُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ ‘‘ یا ’’ اَقَا مُوْا الصَّلَاۃَ وَآ تَوُ ا لزَّکاَ ۃَ کے الفاظ و ارد ہو ئے ہیں۔اس طر ح احادیث پا ک میں بھی دو نوں کاایک ساتھ حکم ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی الْاِسلا م علی خمس شھادۃ أن لَّا اِلہ اِلاَّ اللّٰہ وأن محمداً عبدہ ورسولہ و اِقا م الصلوۃ و اِیتاء الزکا ۃ و الحج وصوم رمضا ن۔ ( بخاری :ج۱ص۶ و مسلم: ج۱ص۳۲) اسلا م کے محل کی بنیا د پا نچ چیز وں پر ہے۔اس بات کی گو اہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبو د نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بند ے اور اس کے رسو ل ہیں نمازقا ئم کر نا،زکو ۃ ادا کرنا،حج کر نا،اور رمضان کے رو زے رکھنا۔ اسی طر ح حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ جب حضرت جبر ائیل علیہ السلام نے حاضر ہو کر آپ سے در یا فت کیاکہ اسلام کیا ہے ؟ تو اس کے جو اب میں آ پ نے |