چر ا رہا تھاتو انہوں نے فرمایا: میں وہی ہوں،اس نے پوچھا’’مابلغ بک ما اری ‘‘ آپ کی جو شا ن میں دیکھ رہا ہوں یہ مر تبہ آپ کو کیو نکر نصیب ہوا؟ انہوں نے فرمایا:
صدق الحد یث و طول السکوت عما لا یعنینی
سچی بات کہنے اور لا یعنی کلا م سے اکثر خا مو ش رہنے سے۔
حضرت وھب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ بنی اسر ائیل میں دو بر گز یدہ آ دمی ایسے تھے کہ وہ پا نی پر چلتے تھے ایک روز وہ دریا میں اسی طرح چل رہے تھے کہ ایک شخص کو انہوں نے ہوا میں اڑتا ہوا دیکھاانہوں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بند ے! تمہیں یہ مر تبہ کیونکر حا صل ہوا ؟ تو اس نے فرمایا:
فطمت نفسی عن الشھوات و کففت لسانی عما لایعنینی و رغبت فیما دعانی الیہ ربی ولزمت الصمت فان اقسمت علی اللّٰہ أبر قسمی۔
( جا مع العلو م و الحکم :ص۹۹ وغیرہ)
میں نے اپنے نفس کو شہو ات سے رو ک لیا اور اپنے زبا ن کو لا یعنی با توں سے بازرکھا،اور میں ہر اس عمل کی طرف ر اغب ہو گیا جس کی طرف میرے رب نے مجھے بلایا،خا مو شی کو میں نے لا ز م پکڑا،اس کی برکت سے اگر میں اللہ تعا لیٰ پر قسم بھی ڈا لوں تو اللہ تعالیٰ اسے پو را کر دیتے ہیں۔
ان احادیث و و اقعات سے لایعنی اور فضو ل با توں سے اجتنا ب کی اہمیت کا اند ازہ ہو سکتا ہے،کہ اس کی پا بند ی بندہ مو من کے او صا ف میں شامل ہے،کہنے کو یہ معمولی عمل ہے مگر اس کا اہتمام نہایت مشکل ہے۔حضرت مورّق العجلی رحمہ اللہ جنکا شما ر بصرہ کے عا بد و زا ہد اور ثقہ محد ثین میں ہو تا ہے فرماتے ہیں : میں ایک عمل کا بیس سا ل سے طلبگار ہوں مگر میں اس کے حصو ل میں تاحا ل کامیاب نہیں ہو سکا،تا ہم آ ئندہ بھی اس کے حصول میں کو ئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا،ان سے در یا فت کیا گیا وہ کو نسا عمل ہے تو انہوں نے فرمایا : ’’ الصمت عما لا یعنینی ‘‘ کہ جس کا مجھے کو ئی فا ئدہ نہیں اس سے خامو شی اختیا رکروں۔( العزلۃ للخطا بی :ص۵۲،الصمت لابن ابی الدنیا)
|