Maktaba Wahhabi

125 - 187
۲۔ قوت غضبیہ،یہ فسا د کی جڑ ہے،مگر نافر ما نی دیکھ کر غصہ نہ آ نا بھی ایما ن کی کمی کا با عث ہے،دشمنا ن دین سے جہاد و قتا ل اسی قوت کا نتیجہ ہے﴿ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّار﴾ (الفتح :۲۹) جو صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہ کا و صف بیا ن ہوا اسی کا کر شمہ ہے۔ ۳۔ قوت شہوا نیہ،اس کی حفا ظت کاحکم ہے،اسے ختم کر نے یا بلا محل ضا ئع کر نے کی اجا زت نہیں،یہ قوت نہ ہو تو نسل انسا نی ختم ہو جا ئے،اس سے خاندا ن بنتے ہیں اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا تا ہے،غرضیکہ ان تینوں قو توں کو اعتد ال اور ڈھب سے استعمال کیا جائے تو فبھا،ورنہ عقا ئد و افکا ر خر اب ہو جاتے ہیں، اور پو را معا شرہ شر و فسا د کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اما م مسلم رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حدیث کے کچھ بعد یہ رو ایت لاکر اس حد یث کی مز ید و ضاحت کی طر ف اشارہ کیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: اِذا أحدکم أعجبتہ المرأۃ فوقعت فی قلبہ فلیعمد اِلی امرأتہ فلیواقعھا فان ذٰلک یرد ما فی نفسہ۔( مسلم: ص۵۴۵۰ ج۱) جب تم میں سے کسی کو کو ئی عو رت بھلی لگے اور اس کی محبت اس کے دل میں بیٹھ جا ئے،تو اسے چا ہیے کہ اپنی بیو ی کے پا س جا کر اپنی ضرو رت پو ری کرے،اس سے اس کے دل میں جو اس عو رت کے با رے میں خیا ل پید ا ہوا تھا ز ائل ہو جا ئے گا۔ گو یا شا دی انسا ن کے لیے بدکا ری سے بچنے کا بہت بڑا ذر یعہ ہے،اس لیے اللہ تعا لیٰ نے بھی اس کا حکم دیتے ہو ئے فرمایا: ﴿ وَ أَنْکِحُوا الْأَ یَا مٰی مِنْکُمْ﴾(النو ر:۳۲)‘‘ تم میں سے جومجرد ہوں اس کا نکا ح کر دوالأَیَامٰی،اَیِّمٌ کی جمع ہے اور اس کا اطلاق ہر اس مرد اور عو رت پر ہو تا ہے جو بے زو ج ہو۔ (ابن کثیر :ج۳ ص ۳۸۳ ) گویا پہلے اگر زوج تھا،بعد میں طلا ق یا وفات سے وہ مجر د ہو گیا،مرد ہو یا عورت اس کا نکا ح کردو۔ اسلا م تجرد کی زند گی پسند نہیں کرتا،رھبا نیت کا بھی اسلا م سے کوئی تعلق نہیں،جبکہ عیسائیت اور ہندو مت کی بنیاد ہی رہبا نیت پر ہے،قد یم زما نہ سے یہ تصو ر پا یا جاتا ہے،کہ
Flag Counter