Maktaba Wahhabi

125 - 534
یہ امر طے شدہ ہے کہ روپے پیسے میں اضافہ کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے اسے کسی کاروبار میں لگانا ضروری ہے ۔ اگرکسی شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ موجود ہو اور وہ اسے کسی کاروبار میں نہ لگائے تو وہ دس سال کے بعد بھی دس لاکھ ہی رہے گا ،اس کو دس لاکھ پچاس ہزار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس سے کوئی کاروبارکیاجائے ۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس سرمایہ تو موجود ہے مگر وہ کاروبار کی صلاحیت نہیں رکھتے یا وہ کاروبار کرنا ہی نہیں چاہتے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کاروبار کے ماہر تو ہوتے ہیں لیکن ان پاس سرمایہ نہیں ہوتا لہٰذا ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے، یعنی جن لوگوں کے پاس سرمایہ نہیں وہ ان لوگوں سے سرمایہ لے کر اس سے کاروبار کرسکیں یا اپنے پہلے سے جاری کاروبار کو ترقی دے سکیں جن کے پاس اپنی ضرورت سے زائد سرمایہ موجود ہو اور اس کا فائدہ سرمایہ کار کو بھی پہنچے۔ ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں اس کی دوصورتیں رائج تھیں۔ (1)سرمایہ دار ضرورت مند کو سرمایہ دے کر اس کا ایک طے شدہ کرایہ وصول کرتا ۔ اسلام کی نگاہ میں یہ طریقہ سرا سر باطل اور حرام ہے کیونکہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کا کرایہ لیا جاسکے ،لہٰذا قرآن نے اسے سود قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ۔ (2)سرمایہ دار اس شرط پر سرمایہ دیتا کہ کاروبار سے جو منافع حاصل ہوگا وہ اس کے اور کاروباری فریق کے درمیان ایک طے شدہ تناسب (Ratio)سے تقسیم ہوگا ۔اس طریقِ کار کو مضاربہ کہاجاتا ہے جس کا لغوی معنی ہے ’’ سفر کرنا ‘‘اور اس کا نام مضاربہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ کاروباری فریق اپنی سفری کوشش اور محنت کے بدلے نفع کا حق دار بنتا ہے۔ مضاربہ میںچونکہ سرمایہ کار اپنے مال کا کچھ حصہ الگ کر کے دوسرے فریق کے حوالے کر دیتا ہے اس لئے بعض اہل علم اسے قراض یامقارضہ بھی کہتے ہیں جس کا معنی ہے ’’کاٹنا‘‘ ۔اسلامی شریعت نے بھی اس کو برقرار رکھااور بعض شرائط اور پابندیوں کے ساتھ اس کو جائز قرار دیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بعثت سے قبل حضرت خدیجہ الکبری کے مال
Flag Counter