Maktaba Wahhabi

242 - 366
حضرات! اس چناؤمیں یہی حکمت کارفرماہے کہ اقامتِ دین کا کام نبی کرسکتاہے یا وہ شخص کرسکتا ہے جو نبی جیسا عقیدہ ،عمل ،خلق اور منہج رکھتا ہو۔یہ مبتدعین کا کام ہرگز نہیں کہ ہم انہیں اپنے قریب کریں یا ان کے قریب جائیں تاکہ ایک قوت بن جائیں ۔اس قسم کے سیاسی تصرفات سے ممکن ہے دنیا کی چند روزہ چاندی بن جائے لیکن دین کے اعلاء کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، خالقِ کائنات نے فرمایا ہے: [يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۰ۙ][1] یہ آیت کریمہ ببانگ ِدہل اس حقیقت کا اعلان کررہی ہے کہ غلبہ واقامتِ دین کا کام صرف ایسی قوم کے ذریعے ممکن ہے جسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس قوم سے محبت ہو،اور یہ بات معلوم ہے کہ دینِ اسلام میں محبت کسی دعویٰ سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے ایک ہی منہج ہے : [قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ۔۔۔][2] یعنی:’’ اللہ رب العزت کی محبت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ا تباع ہے ‘‘ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اقامتِ دین کا کام صرف وہ جماعت کامیابی سے کرسکتی ہے جسکے پاس اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنیاد ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر قائم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص اتباع کا منہج جماعتِ اہلحدیث کے پاس ہے۔لہذا
Flag Counter