Maktaba Wahhabi

142 - 366
’’ یعالج نفسہ اذا اراد عملا لا یرید بہ الناس ‘‘[1] ’’یعنی مکمل محنت اور پوری شدت کے ساتھ اپنے آپ کو آمادہ کرے کہ نیکی کا مقصد لوگوں کو دکھانا نہیں ، بلکہ اللہ رب العزت کی رضا جوئی ہے ‘‘ کیونکہ نیت کا فساد، عمل کو فاسد کر دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( انما لکل امریٔ مانوی)کا مطلب یہی ہے کہ ہر عامل کے عمل کا حصہ اور نصیب اس کی نیت ہے ، اگر نیت نیک ہے تو عمل بھی نیک قرار پائے گااور اسے اس کا باقاعدہ اجر ملے گا اور اگر نیت فاسد ہے تو عمل بھی فاسد قرار پائے گااور اسے اس کے گناہ اور بوجھ کا متحمل ہونا پڑے گا ۔ اہمیت نیت مزید اجاگر کرنے کے لئے ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں : مسند احمد اور سنن نسائی میں عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’ من غزافی سبیل اللہ ولم ینو الا عقالا فلہ مانوی ‘‘[2] جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور ا س کی نیت حصول زر ہو تو اسے اس ( نیت فاسدہ ) کا صلہ مل جائے گا ۔(یعنی وہ ثواب سے یکسر محروم رہے گا) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لا ئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ان اکثر شہداء امتی أصحاب الفرش و رب قتیل بین صفین اللہ أعلم بنیتہ ‘‘[3]
Flag Counter