Maktaba Wahhabi

87 - 277
پھر فرمایا: ’’ان لوگوں کی یہ حالت کیوں ہوئی؟’’ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مہاجر کے انصاری کو تھپڑ مارنے کی کیفیت بیان کی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس طرح کی پکار چھوڑ دو یہ بہت بری بات ہے۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’ مہاجرین جب شروع میں مدینہ آئے تو بہت تھوڑے تھے؛ پھر ان کی کثرت ہوگئی۔‘‘ جب یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تک پہنچی تو اس نے کہا :’’اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو جو ہم میں زیادہ عزت والا ہوگا وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔‘‘ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سن لی؛ تووہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ اجازت مرحمت فرمائیں؛ ہم اس خبیث کو قتل کر دیں؟ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عمر! اسے چھوڑ دو؛ ایسا نہ کرو ورنہ یہ لوگ چرچا کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔‘‘ [رواہ احمد ۱۴۹۲۴] حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے چچا کے ساتھ تھا تو میں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کو کہتے ہوئے سنا : { لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا} ’’ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو حتی کہ بھاگ جائیں۔‘‘ اور پھر اس نے یہ بھی کہا : { یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ } ’’ کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ لوٹے توبا عزت ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔‘‘ ’’میں نے یہ اپنے چچا سے بیان کیا پھر میرے چچا نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ تو ان لوگوں نے قسم کھا کر کہا کہ: ’’ہم نے ایسا نہیں کہا ہے۔‘‘
Flag Counter