Maktaba Wahhabi

259 - 277
۱۔ آپ کے بعض اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ انہیں اہل مکہ کی طرف سے عذاب اٹھانا پڑتا ہے۔ اور انہوں نے دعا کرنے کا مطالبہ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ : ’’ عنقریب اس دین کی نصرت ہوگی؛ اور انہیں حکومت ملے گی۔ حتی کہ مسافروں کو امن نصیب ہوگا؛ انہیں کوئی خوف یا بد امنی کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ اوریہ پھر ویسے ہی ہوا۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت بطور شکایت کے عرض کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے ہوئے کعبہ کے سایہ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا:’’ تم سے پہلے ایسے لوگ ہوتے تھے کہ ان کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا وہ اس میں کھڑے کردیئے جاتے پھر آرا لایا جاتا؛ اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دیئے جاتے؛ مگر یہ ظلم انہیں ان کے دین سے نہ روکتا تھا۔لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت کے نیچے اور پٹھوں پرچلائی جاتی تھیں؛مگر یہ ظلم انہیں ان کے دین سے نہ روکتا تھا۔ اللہ کی قسم! یہ دین اسلام کامل نہ ہوگا حتی کہ اگر ایک سوار صنعا سے حضرموت تک چلا جائے گا تو اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور نہ کوئی شخص اپنی بکریوں پر بھیڑیے کا خوف کریگا لیکن اس معاملہ میں تم عجلت چاہتے ہو۔‘‘ [رواہ البخاری 3534] یہ بشارت بعد میں بالکل ویسے ہی پوری ہوئی جیسے رب سبحانہ و تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت فرمائی ؛ اور انہوں نے ان تمام علاقوں پر حکومت کی جن کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا تھا۔ اور ان علاقوں میں امن و امان قائم ہوا۔
Flag Counter