Maktaba Wahhabi

253 - 277
تھے؛ مگر ساری زندگی جھوٹی خبریں پھیلاکر آپ کو تکلیف دیتے رہے ؛ اور آپ کے دین کے بارے میں لوگوں کو شکوک و شبہات کا شکار کرتے رہے۔ اور آپ کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکاتے رہے۔مگر آپ اس کے باوجود ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے۔ انہیں نہ صرف معاف کرتے بلکہ ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرتے ۔ 1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ’’جس وقت عبداللہ بن ابی مر؛ا تو اس کا بیٹا عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا؛ تو آپ نے اپنا پیراھن اس کے کفن کے لیے دے دیا۔ اور پھر اس کی نمازجنازہ پڑھانے جانے لگے؛ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! وہ تو منافق تھا آپ منافق کی نماز کس طرح پڑھانے جا رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو منافقوں کے لیے دعاکرنے سے منع فرماتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمر رضی اللہ عنہ ! اللہ نے مجھ کو اختیار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے: {اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ } [التوبۃ 80] ’’آپ ان کے لیے بخشش مانگیں، یا نہ مانگیں، اگرآپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں تو بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشیں گے۔‘‘ اور فرمایا: ’’ میں اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول! وہ تو منافق تھا۔‘‘ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : {وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ} [التوبۃ 84] ’’اور ان میں سے کوئی مر جائے اس کا جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہونا‘‘
Flag Counter