Maktaba Wahhabi

249 - 277
کھاتے پیتے۔آپ کسی بھی چیز یا نشانی وغیرہ سے اپنے آپ کو ان سے جدا نہیں کرتے تھے۔ اور جو کوئی آپ کی شان میں کوتاہی کرتا؛ اسے معاف کردیتے؛ اس پر سزا نہ دیتے تھے۔ بعض مسلمانوں سے بغیر کسی برائی کے ارادہ کے عجیب قسم کی سنگین غلطیاں ہوجاتی تھیں۔ تو آپ انہیں معاف کردیتے۔ جیسے اہل بادیہ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ ادب آداب کا خیال نہیں رکھتے۔ مگر آپ ان پر سختی نہ کرتے؛ بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں لا کر بٹھلایا اور اس کے پیر باندھ دیئے۔ پھر اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا : تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ تو ہم لوگوں نے کہا کہ یہ صاف رنگ کے آدمی جو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں؛ انہی کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔‘‘ پھر اس شخص نے آپ سے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کہو میں موجود ہوں۔‘‘ اس نے آپ سے کہا :’’ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور پوچھنے میں آپ پر سختی کروں گا، آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناراض نہ ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ:’’جو تیری سمجھ میں آئے، پوچھ…۔‘‘ [البخاری 63] اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتا تھا؛ کیونکہ یہ آدمی آپ کی کسی جداگانہ امتیازی حیثیت یا مسند کی وجہ سے آپ پہچان نہیں سکا؛ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کمال درجہ کی تواضع تھی۔‘‘ ۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
Flag Counter