Maktaba Wahhabi

192 - 277
تشبیہ دی گئی ہے جو بلندی کی جانب چڑہتا ہو۔ اسے تنگی اور سانس میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے گویا کہ وہ دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جارہا ہو۔ آج کے سائنسی انسان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جیسے ہی انسان بلندی کی طرف جاتا ہے تو آکسیجن میں کمی آتی جاتی ہے۔ پھر فضاؤ کے دباؤ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو سینے یا دل میں تکلیف ہو انہیں سمندر کی سطح کے برابر[یا سطح زیریں زمین پر] رہنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ اس سے ہمارے لیے اس آیت کا معنی واضح ہوتا ہے۔اور دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے۔ کیونکہ اس حقیقت تک رسائی تو اب اس دور میں ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ } [الانعام ۱۲۵] ’’تو جسے اللہ ہدایت دینا چا ہیں اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں اور جسے گمراہ کرنا چاہیں اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کردیتے ہیں؛گویا وہ آسمان میں چڑھ رہا ہو۔‘‘ آیت کریمہ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ جب انسان آسمانوں کی طرف [بلندی پر] چڑہتا ہے تو اسے تنگی محسوس ہوتی ہے۔ اور جیسے جیسے انسان بلندی پر جاتا رہتا ہے اس تنگی اور گھٹن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور اس کے لیے لفظ( یَصَّعَّدُ)استعمال کیا ہے ۔ تاکہ واضح کیا جاسکے کہ بلندی پر جانے سے اس کی مشقت میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ جیسے ہی انسان بلندی پر جاتا ہے؛ آکسیجن میں کمی آتی جاتی ہے۔آکسیجن کی کمی کا اثراور تنگی کا احساس پھیپھڑوں میں ہوتا ہے جو کہ سینے میں ہیں ۔ اس چڑھائی کے دوران انسان کو جو تنگی اور حرج لاحق ہوتے ہیں قرآن میں وارد کلمات (ضَیِّق ) اور (حَرَج )سے ان کی توضیح وتفسیر کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات پختہ ہوکر سامنے آتی ہے کہ
Flag Counter