Maktaba Wahhabi

184 - 277
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سے اس آیت کی تفسیر نقل کی گئی ہے : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمَوٰتٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ} [البقرۃ ۲۹] ’’وہی ہے جس نے زمین کا سب کچھ تمھارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا، پس انھیں درست کر کے سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ اوراللہ تعالیٰ نے پانی سے پہلے کوئی دوسری چیز پیدا ہی نہیں کی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ ہوا تو پانی سے دھواں اٹھا اور اوپر بلند ہوااور پانی کو اس نے گھیر لیا‘ اسی سے آسمان کو سماء کہا جاتا ہے۔‘‘ اور پھر فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ : {ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ } [فصلت ۱۱] ’’ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا۔‘‘ یہ دھواں پانی کے سانس لینے کی وجہ سے تھا[یعنی اس سے اٹھنے والے بخارات ]۔ پھر اس کو ایک آسمان بنادیا۔‘‘ [تفسیر الطبری 1؍222] ان مفسرین میں سے ایک امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں؛ آپ فرماتے ہیں: ’’حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ کے حکم کا صعود آسمان کی طرف ہوا؛ وہ اس وقت دھواں تھا۔ دھواں جو کہ آگ کے شعلوں سے بلند ہوتا ہے۔ اور عاریۃً یہ لفظ زمین سے اٹھنے والے بخارات پر بھی بولا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے مفسرین کہتے ہیں: یہ دھواں پانی سے اٹھنے والے بخارات تھے۔‘‘ [فتح القدیر4؍722] جب کہ علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ نے مفسرین کے جملہ اقوال ذکر کرکے تورات میں وارد
Flag Counter