Maktaba Wahhabi

172 - 277
{ثُمَّ اَنشَئْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ } [المؤمنون 14] ’’ پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا۔‘‘ دوسری تخلیق کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے؛ ابن عباس رضی اللہ عنہ ؛ شعبی ؛ابوعالیہ ؛ ضحاک اورابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ اس سے مراد روح کا پھونکا جاناہے؛ اس سے پہلے ؛ یہ ایک جماد ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سے مراد دنیا کی طرف نکل آناہے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس کے بالوں کا اگ آنا مراد ہے۔ امام ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دانتوں کو نکلنا اور بال اگنا مراد ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کمالِ شباب تک پہنچنا مراد ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی روایت منقول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت ان تمام اقوال کو شامل ہے؛کسی کو نطق آیت شامل ہے تو کسی کو ادراک اورتفسیر؛ اوریوں یہ آیت موت تک حاصل ہونے والے تمام معقولات کے حصول کو شامل ہے۔‘‘ [تفسیر القرطبی 12؍ 108] امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے یہ تمام سابقہ اقوال نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’اور ان میں سے صحت کے زیادہ قریب ان کاقول ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد روح کا پھونکا جاناہے۔ کیونکہ جب اس جنین میں روح پھونکی جاتی ہے تو ایک دوسری تخلیق سے انسان کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اس سے پہلے اس کے وہی احوال تھے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں؛ کہ وہ نطفہ سے علقہ بنا؛ علقہ سے مضغہ بنا؛ پھر ہڈیاں؛ اور پھر جب اس میں روح پھونکی جاتی ہے تو ان تمام سابقہ صورتوں سے نکل کر ایک انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جیسے ہمارے بابا حضرت آدم علیہ السلام روح پھونکے جانے کے بعد مٹی سے انسان بن گئے تھے۔ یہ ان کی وہ دوسری تخلیق تھی جو اس مٹی سے ہٹ کر تھی جس سے آپ کا مادہ
Flag Counter