Maktaba Wahhabi

129 - 277
کوئی انسان خواہ وہ کتنا ہی فصیح کیوں نہ ہو؛ اور بلاغت کی منتہاء کو پہنچا ہوا ہو ؛جب وہ مختلف معانی پر مشتمل ایک بڑی کتاب تحریر کرتا ہے؛ تو اس کے کلام میں بعض اختلافات ظاہر ہوجاتے ہیں۔ کہیں پربڑا مضبوط کلام ہوتاہے؛ اور کہیں پر کمزور کلام ہوتاہے۔ اورکہیں پر گرا ہوا کلام آجاتا ہے؛جبکہ قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔‘‘ [تفسیر الرازی 10؍172] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قرآن کے معانی سے بھی ویسے ہی چیلنج کیا ہے جیسے اس کے الفاظ اوربلاغت سے چیلنج کیا ہے۔کیونکہ منافقین کو قرآن کے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونے میں شک تھا۔ اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کا اظہار تو کرتے ہیں؛ مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے نکلتے ہیں تو ان احکام کی مخالفت کرتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں اس قرآن پر کامل یقین و اعتماد نہیں تھا۔ جب بھی انہیں کوئی چیز قابل اعتراض نظر آتی تو خود بھی شک کا شکار ہوجاتے اورلوگوں میں بھی شکوک و شبہات پھیلاتے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں قرآن میں تدبر و تفکر کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ} [آل عمران 7] ’’ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔‘‘ تدبر: دبر سے مشتق ہے؛ اس کا معنی ہے پیٹھ ۔یہ ’’فعلاً الدبر سے مشتق کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’ تَدَبَّر‘‘جب کسی معاملہ میں غور وفکر کرے۔ یعنی اس کے غیب کی حالت میں ؛ یا اس کے انجام میں۔ یہ ان افعال میں سے ہے جنہیں اسماء جامدہ سے مشتق کیا گیا ہے ۔ تدبر: تَدَبَّر خود اپنے آپ میں تأمل کو متعدی ہوتا ہے۔
Flag Counter