آپ کو نہ چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔‘‘ [1]
پھر سورۂ واقعہ کی درج ذیل آیات نازل ہوئیں :
﴿إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾
’’ بے شک یہ قرآن نہایت قابل احترام ہے ایک محفوظ کتاب میں ۔ اسے بس پاک (فرشتے) ہی ہاتھ لگاتے ہیں ۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے ۔‘‘ [2]
’’کتاب مکنون‘‘سے مراد ایسی کتاب جو خوب محفوظ و مصئون ہو۔ اور اس میں آسمان پر موجود لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کتاب قرآن مجید کو مطہّرین کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا اور مطہّرین کے معنی ہیں ’’ جو ہر قسم کی ناپاکی ، آلودگی یا گناہوں جیسی بُرائیوں سے پاک ہیں۔‘‘یہ فرشتوں کی طرف اشارہ ہے اور شیطان قرآن کو ہر گز چھو نہیں سکتا ۔
اب چونکہ شیطان کے لیے قرآن پاک کو چھونا ممنوع ہے اور وہ اس کے قریب نہیں پھٹک سکتا ، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قرآن مجید کی آیات لکھی ہوں۔ مزید برآں سورۃ الشعراء میں کہا گیا ہے :
﴿وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ﴾
’’ اور شیاطین اس (قرآن) کو لے کر نازل نہیں ہوئے اور نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ وہ اس کی استطاعت ہی رکھتے ہیں ۔ بے شک وہ تو اس کے سُننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں ۔“[3]
|