Maktaba Wahhabi

173 - 199
ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش سے292برس قبل اس وقت پیش آیا جب نوح علیہ السلام کی عمر600 برس ہوچکی تھی۔ گویا یہ طوفان 21 ویں یا 22 ویں صدی قبل مسیح میں آیا ہوگا۔ بائبل میں طوفان کی جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ آثارِ قدیمہ کے مآخذ سے ملنے والی سائنسی شہادتوں سے متضاد ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مذکورہ صدیوں میں مصر کے گیارھویں حکمران خاندان اور بابل کے تیسرے خانوادے کی سلطنتیں کسی تہذیبی بحران کے بغیر مسلسل قائم تھیں اور کسی بڑے طوفان سے متاثر نہیں ہوئی تھیں جو اکیسویں بائیسویں صدی قبل مسیح میں آیا ہو۔ یہ بات بائبل کے اس قصے کی تردید کرتی ہے کہ طوفان کے پانیوں میں ساری دنیا ڈوب گئی تھی۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں نوح علیہ السلام اور طوفان نوح کے بارے میں جو قصہ بیان کیا گیاہے وہ کسی سائنسی شہادت یا آثار قدیمہ کے کوائف سے متصادم نہیں۔ اول تو قرآن اس واقعے کی کسی متعین تاریخ یا سال کی نشاندہی نہیں کرتا۔ دوم، قرآن کے مطابق بظاہر یہ سیلاب ایک عالم گیر واقعہ نہیں تھا جس نے زمین پر موجود زندگی کو مکمل طورپر تباہ کردیا ہو۔ لہٰذا یہ فرض کرنا غیر منطقی بات ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طوفان نوح کا قصہ بائبل سے مستعار لیا اوراس کا ذکر قرآن میں کرنے سے پہلے غلطیوں کی تصحیح کردی۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون: قرآن کریم اور بائبل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون (جس کے دور میں یہود کا مصر سے خروج عمل میں آیا) کے جو قصے بیان کیے گئے ہیں، وہ ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں الہامی کتب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کھاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوب گیا جسے موسیٰ علیہ السلام اسرائیلیوں کے ہمراہ پار کرگئے تھے۔ قرآن کریم کی سورۂ یونس میں ایک مزید خبر یہ دی گئی ہے: ﴿فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ
Flag Counter