Maktaba Wahhabi

196 - 199
قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آسمان اورزمین 8دنوں میں پیدا کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کواس کی صداقت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اوراس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہی ہمیں بتارہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طورپر استعمال کریں گے۔ {ثُمَّ} سے مراد ’’مزید برآں‘‘ اگرآپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین اور آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی۔ اور4دنوں میں پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا گیا اورزمین میںبرکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے اندازے کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا، لہٰذا آیات: 9 اور10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی۔ آیات: 11 اور 12کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوںمیں آسمان پیدا کیے گئے۔ گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کالفظ {ثُمَّ} استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے۔ قرآن کریم کے بعض تراجم میں ثُمَّ کا مطلب پھر لکھا گیا ہے، اوراس سے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر{ثُمَّ}کا ترجمہ غلط طور پر ’’پھر‘‘ کیا جائے توآسمانوں اورزمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادم ہوگی جو یہ بتاتی ہیں کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیے گئے ،علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کریم کی سورۃ الانبیاء کی
Flag Counter