Maktaba Wahhabi

227 - 199
انبیاء کے القاب مختلف انبیائے کرام کو مختلف القاب دیے گئے ہیں۔ جب کسی پیغمبر کو کوئی لقب دیا جاتا ہے تو اس کا لازمی طورپر یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دوسرے پیغمبر وہ خصوصیت یا خوبی نہیں رکھتے، مثال کے طورپر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرآن میں خلیل اللہ، یعنی اللہ کا دوست کہا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ تمام دوسرے پیغمبر اللہ کے دوست نہیں تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کہا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا۔ اس سے بھی یہ مراد نہیں کہ اللہ نے دوسرے انبیاء سے بات نہیں کی، اسی طرح مسیحuکا بطورکلمۃ من اللّٰہ، یعنی ’’اللہ کی طرف سے ایک کلمہ‘‘ ذکر کیا گیا تواس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے انبیاء اللہ کی طرف سے ایک کلمہ یا پیغام بر نہیں ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام جنھیں عیسائی یوحنّا صبّاغ (John The Baptist)کہتے ہیں، ان کے ذکر میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ من اللّٰہ ، یعنی ’’اللہ کی طرف سے ایک کلمہ‘‘ کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٨﴾ فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ﴾ ’’وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی:میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا کر، بے شک توہی دعا سننے والا ہے، پھر جب وہ حجرے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا تو فرشتوں نے اسے آواز دی:بے شک اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے، وہ اللہ کے ایک کلمے (عیسیٰ) کی توثیق کرے گا، اور سردار، نفس پر ضبط رکھنے والا اور
Flag Counter