Maktaba Wahhabi

182 - 199
سورہ انبیاء میں یہ حقیقت یوں بیان کی گئی ہے: ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ’’اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھیں گے، پھر کسی شخص پر ظلم نہ ہوگا، اوراگر رائی کے دانے کے برابر بھی (کسی کا) عمل ہوگا تو ہم اسے (تولنے کے لیے وہاں) لے آئیں گے۔ اور ہم حساب کرنے والے کافی ہیں۔‘‘ [1] عدل کی ایک مثال کیااستاد اس طالب علم کو معاف کردیتا ہے جو امتحان میں نقل کرتا ہے؟ اگرامتحان کے دوران میں ایک طالب علم نقل کرتا پایا جائے اور امتحان میں نگرانی کرنے والا استاد اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے تو کیا استاد یہ کہتا ہے کہ وہ بہت قابل رحم ہے اورپھر اسے نقل جاری رکھنے کی اجازت دے دیتا ہے؟ یقینا وہ طالب علم جنھوں نے امتحانات کے لیے محنت کی ہوگی، استاد کو قطعاً رحم دل اور مہربان نہیں کہیں گے بلکہ اسے غیر عادل قراردیں گے۔استاد کا یہ رحم دلانہ فعل دوسرے طالب علموں کے لیے بھی نقل کی ترغیب کا باعث ہوگا۔ اگر تمام اساتذہ اسی کی طرح رحم دل اور مہربان ہوجائیں اور طالب علموں کو نقل کی اجازت دینے لگیں تو کوئی طالب علم کبھی امتحانات کے لیے مطالعہ نہیں کرے گا جبکہ نقل کرکے وہ اعلیٰ درجے میں امتحان پاس کرلے گا۔ نظری طورپر امتحانات کے نتائج بڑے شاندار ہوں گے جن میں تمام طلبہ اول درجے میں اور امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب قرار پائیں گے لیکن عملی طورپر وہ زندگی میں ناکام ہوجائیں گے اورامتحانات کا سارا مقصد ہی غارت ہوجائے گا۔
Flag Counter