Maktaba Wahhabi

138 - 199
نومسلم عجمیوں کے لیے اس کی بڑی اہمیت ہوگئی۔ ہر جگہ لوگ اپنی قراء ت کو صحیح اور دوسروں کی قراء ت کو غلط قراردینے لگے، اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاسے قرآن مجید کا اصل نسخہ مستعار لیا جس کے متن کی توثیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق قرآن کی کتابت کرنے والے چار صحابیوں کو، جن کی قیادت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی، یہ حکم دیا کہ وہ مکمل قرآن مجید کی متعدد نقول تیار کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ نقول مسلمانوں کے بڑے بڑے مراکز میں بھجوادیں۔ بعض لوگوں کے پاس قرآن کے بعض حصوں کے ذاتی مجموعے موجود تھے۔ عین ممکن تھا کہ یہ نامکمل ہوں اوران میں غلطیاں بھی موجود ہوں، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایسی تمام نقول نذر آتش کردیں جو اصل نسخۂ قرآنی سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں تاکہ قرآن کا اصل متن محفوظ کیا جاسکے۔ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توثیق شدہ اصل قرآن کے متن سے نقل کردہ قرآن کی دو ایسی نقول آج بھی دستیاب ہیں۔ ان میں ایک تاشقند (ازبکستان) کے عجائب گھر میں اور دوسری استنبول (ترکی) کے توپ کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ اِعراب ِ قرآن قرآن مجید کے اصل مسودے میں حرکات اور اعراب کی علامتیں ظاہر نہیں کی گئی تھیں۔ ان میں تین اہم علامتوں کو اردو زبان میں زبر، زیر، پیش اور عربی میں فتحہ، ضمہ اور کسرہ کہا جاتا ہے۔ شد، مد اورجزم وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔ عربوں کوقرآن مجید کے صحیح تلفظ کی ادائیگی کے لیے ان علامات کی کوئی حاجت نہیں تھی کیونکہ عربی ان کی مادری زبان تھی، تاہم غیر عرب مسلمانوں کے لیے اعراب کے بغیر قرآن کی صحیح تلاوت مشکل تھی، چنانچہ یہ علامتیں بنو امیہ
Flag Counter