Maktaba Wahhabi

99 - 255
رَعِیَّتِہِ۔))[1] ’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور تم سب سے اس کی اپنی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی، امیر(اپنی رعایاکا) ذمہ دار ہے، آدمی اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، پس(اس طرح) تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب سے اس کی اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اسلامی معاشرے میں ہر شخص کے پاس ایک ریوڑ ہے جس کی وہ نگرانی کر رہا ہے(یا جسے وہ چرا رہا ہے) سماج میں اس کے مقام سے قطع نظر کہ چوٹی پر ہے کہ زمین پر، مرد ہے کہ عورت ہے، آزاد ہے کہ غلام ہے، حالات و ماحول جیسے بھی ہوں وہ اپنی بھیڑ کا ذمہ دار ہے۔ شیخ محمد عبداللہ دراز اس مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’سچ بات یہ ہے کہ یہ حالات و ماحول کبھی پچھڑتے نہیں، ہر شخص کے واقعی طور پر کچھ روابط ہوتے ہیں، وہ ایک متعین مقا م میں ہوتا ہے، اور سماج کی مشینری میں وہ اپنا کام کرتا ہوتا ہے۔ باپ اپنی اولاد کی مادی و اخلاقی خوشحالی کا ذمہ دار ہوتا ہے، ایک مربی نوجوان کی عقلی واخلاقی تہذیب کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مزدور اپنے کام کو کرنے اور اسے پورا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، ایک قاضی وحاکم لوگوں میں عدل وانصاف کی تقسیم کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پولیس امن واستقرار کی ذمہ دار ہے، فوجی وطن کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، اسی طرح ہم سب لوگ تنہا تنہا اپنے دل کی پاکیزگی اور اپنے افکار کی درستگی کے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ہم اپنی صحت اور زندگی کی حفاظت کے بھی ذمہ دار ہیں، حتیٰ کہ ہم سب انسانی زندگی کے پل پل میں بعض ذمہ داریوں کا وجود دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ اور واہمہ نہیں ہے بلکہ واقعہ اور حقیقت ہے بشر طیکہ اس کے شرائط عامہ پالیے جائیں، اس ذمہ داری کی تخصیص و تحدید کے سبب ہی اختلاف مواقف کا اس میں کافی
Flag Counter