نتائج کا ظہور ٹی وی پروگرام دیکھنے کے فوراً بعد یا پروگرام ختم ہوتے ہی نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات زیادہ دنوں بعد ہوتا ہے۔ مروان کجک یہ بھی کہتے ہیں : ’’یہ بات یقینی ہے کہ یہ برے نتائج معلومات کے ملتے اور نفس میں اس کے پیوست ہوتے ہی فوراً ظاہر نہیں ہوتے بلکہ یہ دوسرے پروگراموں کی آمیزش کے نتیجہ میں کچھ وقفہ کے بعد ظاہر ہوتے ہیں جو ایسے پروگراموں کی کثرت کے نتیجے میں اپنا عمل دکھاتے ہیں اور داخل کو خارج کی طرف اپنے متحرک کردار کی صورت میں دھکیلتے ہیں جو باہم تعاون سے ایسے غیر ارادی عمل کے ترجمان ہوتے ہیں جو مختلف معنی و مفہوم کی شکل میں نفس میں رچ بس گئے ہیں اور نفس میں اپنے آثار واہداف اور اغراض ومقاصد چھوڑ چکے ہیں۔[1]
لیکن ان سب کے باوجود راقم الحروف کا خیال ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ کو صحیح خطوط پر لگا کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان کے پروگرام اور نشریات کی اپنے اسلامی عقائد اور معیاد کے مطابق اصلاح کرلی جائے اور مسلمانوں کے بیش قیمت اوقات کو ضائع ہونے سے بچا یا جائے تو ان کے بہت سے برے اثرات کی تلافی ممکن ہوسکے گی اور ذاتی تربیت وغیرہ کے مختلف میدانوں میں ان سے استفادہ ممکن ہوسکے گا۔
پیہم کوشش اور خطا:
یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان کبھی غلطی کرتا ہے اور کبھی صواب، کبھی کچھ قدم آگے بڑھاتا ہے اور دوسرا لڑکھڑاتا ہے۔ مگر حصول مقصد کی عزیمت اور امید و ارادے کی پختگی اسے بار بار کوشش کرنے پر ابھارتی ہے، انسان اپنے عزائم کی تکمیل یا نئے تجربات کی تلاش اور انسانی اجتہادات وتحقیقات سے سرفرازی کے لیے کوشش اور خطا کے اسلوب کا سہارا لیتا ہے۔
کوشش اور خطا کا مطلب یہ ہے کہ کسی عمل کو ایک زائد کئی مرتبہ کیا جائے تا کہ ممکنہ کامیابی کی انتہا متحقق ہوسکے۔ اسلامی تربیت کے اس اسلوب کی دلیل وہ مشہور حدیث ہے جو ’’حدیثا المسیٔ صلاتہ‘‘ (یعنی غلط ڈھنگ سے نماز پڑھنے والے کے واقعہ پر مبنی حدیث
|