أوالھذرمۃ فی القراء ۃ)) [1]
’’تلاوت قرآن کے بارے میں لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے اس کی تلاوت کی مقدار میں بھی اختلاف ہے، جیسے جس شخص کو خوب غورفکر سے قرآن کے لطائف اور معارف حاصل ہوں گے تو وہ اتنی ہی مقدار کی تلاوت پر اکتفا کرے گا جتنے سے اسے مقر رمقدار سے کمال فہم حاصل ہوجائے، اسی طرح جو شخص تعلیم و تعلم میں مشغول ہو یا جج اور قاضی ہو یا دوسرے دینی معاملات یا عام مصالح میں مصروف رہتا ہو تو وہ صرف اتنی مقدار کی تلاوت پر اکتفا کرے گا جتنے سے اس کو مفوضہ ذمہ داری اور فریضہ متاثر نہ ہو، اور نہ اس کی کماحقہ ادائیگی میں خلل واقع ہو، البتہ جو شخص مذکورہ ذمہ داریوں سے بری ہو وہ حتی الوسع زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے مگر اتنی زیادہ نہ کرے جس سے طبیعت اکتانے لگے یا قرأت میں خلل، گڑ بڑی اور اشتباہ ہونے لگے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ کا اس قول کو بیا ن کرنے کا اصل مقصدیہ ہے کہ صرف کثرت تلاوت ہی سے نفس کی تربیت نہیں ہوسکتی، بلکہ چند آیات ہی تلاوت سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ انسان اس کے معانی میں غوروفکر کرے، اس میں پوشیدہ راز کو کھنگالے، اگر قاری قرآن خود صلاحیت نہیں رکھتا تو اہل علم سے سوال کرے، یا ان تفاسیر کے مطالعہ سے حاصل کرے جو اہل سنت والجماعت کے نزدیک معتبر ہیں۔
۲۔ ذکر الٰہی:
علماء نے لکھا ہے کہ ذکر الٰہی کی دوقسمیں ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر کرنا، اس کی حمدوثنا بیان کرنا، اور جو چیزیں اس کے شایان شان نہیں ہیں ان سے اس کی تنزیہہ اور تقدیس کرنا۔
(الف).... یہ کہ حمد وثنا کا بیان خود ذکر کرنے والے کی جانب سے ہو، جیسے:
|