Maktaba Wahhabi

153 - 255
غوروفکر کرے، اس کے اوامر پر عمل کرے، منہیات سے دور رہے، اگر ان کیفیات کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ تلاوت کرنے اور اس پرمداومت برتنے کے خلاف نہیں۔ سلف صالحین کے عادات و اطوار قرآن کریم کی تلاوت اور تدبر سے اپنی ذات کی تربیت کرنے میں مختلف تھے۔ کچھ حضرات ہر دو مہینہ میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔ جب کہ کچھ دوسرے حضرات ایک مہینہ میں ایک مرتبہ ختم کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ حضرات دس رات میں یا آٹھ رات میں ایک مرتبہ ختم کیا کرتے تھے۔ اور دوسرے کچھ حضرات اس سے زیادہ یا کم اوقات میں قرآن ختم کرتے تھے۔[1] علمائے امت نے ایک سال میں کم ازکم دو مرتبہ قرآن ختم کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، اس استحسان کی دلیل یہ ہے کہ وفات کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سامنے قرآن کو دو مرتبہ پیش کیا تھا۔[2] قرآن کریم کی تلاوت کی مقدار کتنی ہو؟ اس کا تعین ہر شخص کی اپنی حالت کے اعتبار سے ہوگا، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((المختار أن ذلک یختلف با ختلاف الأشخاص، فمن کان یظھر لہ بدقیق الفکر لطائف ومعارف فلیقتصر علی قدر یحصل لہ معہ کمال فھم مایقرأ۔ وکذالک من کان مشغولٔا بنشر العلم أوفصل الحکومات أوغیر ذلک من مھمات الدین والمصالح العامۃ فلیقتصر علی قدر لا یحصل بسبہ اخلال بما ھو مرصد لہ ولا فوات کمالہ، وان لم یکن من ھولاء المذکورین فلیکثر ما أمکنہ من غیر خروج الی حد الملل
Flag Counter