’’یہ ساری آیات کریمہ آج کے حقائق ثابتہ کے عین مطابق ہیں۔ لیکن یہ ان حضرات کے لیے کیسے ممکن ہو سکا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھے کہ علم الاجنہ کی ان کثیر اور باریک تفصیلات پر مطلع ہوچکے تھے؟ نزول قرآن کے تقریباً ایک ہزار سال بعد ان حقائق کا انکشاف کیا گیا۔ علوم کی تاریخ ہمیں اس بات کی طرف لے جا رہی ہے کہ ہم بغیر کسی انسانی حیلہ حوالہ کے قرآن میں ان آیات کے وجود کا اعتراف کرلیں۔‘‘[1]
۲:....غرض وغایت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے وجہ نہیں پیدا کیا اور اسے بے کار نہیں چھوڑ دیا، بلکہ جب اس کا ڈھانچہ تیار کرلیا اور اپنی روح اس میں پھونک لیا تو اپنے مقرب فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا، پھر اسے جنوں کے ہمراہ زمین پر اتارا تا کہ ابتلاء و آزمابش کا دور شروع ہوجائے اور اسے زمین میں خلیفہ بنایا تا کہ اپنی اطاعت سے اسے آباد کرے۔ شیخ عبدالرحمن بن محمد الدوسری لکھتے ہیں :
’’روئے زمین میں اللہ کا خلیفہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ احکام الٰہی کو اپنے اوپر منطبق کرے اور دوسروں پر اسے نافذ کرے۔‘‘[2]
ہمارے رب نے انسان سے عہد لیا کہ وہ اس کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی ک شریک نہ ٹھہرائے۔ ارشاد ہے:
﴿ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا
|