Maktaba Wahhabi

229 - 255
﴿ قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ (یوسف: ۱۰۸) ’’آپ کہہ دیجیے میری راہ یہی ہے، میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْمُو ْٔمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسُ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاہُمْ خَیْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطَ النَّاسُ وَلَا یُصْبِرُ عَلٰی أَذَاہُمْ۔))[1] ’’وہ مومن جولوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، ان کی تکلیف دہی پر صبر کرتا ہے وہ ان مومن سے بہتر جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی تکلیف دہی پر صبر نہیں کرتا۔‘‘ (ج).... ثواب اور سکون نفس: لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے سے بہت سے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوجاتی ہے، جیسے جمعہ و جماعت میں حاضری، مسلمانوں کے باہم واجبی حقوق کی ادائیگی، نیز مریض کی عیادت، جنازہ میں شرکت اور قبول دعوت، اور اسی طرح ان ذکرو اذکار کی مجالس خیر میں شرکت جن پر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فخر کرتا ہے، اسی طرح اخوان سے ملاقات میں دل کو سکون ملتا ہے اور عبادت گزاری کے اسباب میں تحریک ہوتی ہے، اور ہم مشرب حضرات سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے سے انسیت حاصل ہوتی ہے، اس مناسبت سے امام غزالی رحمہ اللہ بہت قیمتی وصیت فرماتے ہوئے کہتے ہیں : ’’لوگوں سے ملتے وقت گفتگو کا محور دینی امور پر بحث، قلبی احوال کا بیان، حق پر ثابت قدمی میں کمی اور کوتاہی کا تذکرہ اور ضمیر کی رہنمائی کی حرص ہونا چاہیے۔ اس سے قلب و روح کو سکون حاصل ہوتا ہے، جو شخص اپنے نفس کی اصلاح چاہتا
Flag Counter