تیسری بحث:
دوسروں کی فکر
جیسا کہ ہم پچھلے صفات میں ذکر کر چکے ہیں کہ ذاتی و شخصی تربیت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی اپنے نفس کے تزکیہ و تربیت کی کوشش کرے، اور یہ کسی دوسرے کی جانب سے مدد یا رہنمائی کے انتظار کے بغیر محنت سے پورا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ آدمی اپنی تربیت کی فکر میں اس دلیل سے دوسرے سے بے توجہ ہوجائے کہ وہ اسے اس کی تربیت سے پھیر دے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی فکر کرنا ذاتی تربیت کے عناصر میں سے ایک اہم بنیادی عنصر ہے۔
راقم کے نزدیک دوسروں کی فکر کے اصول کا مقصد، ان سے میل جول،ان کے ساتھ رہن سہن، انہیں فائدہ پہنچانا، انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا اور ان کے درمیان خیر پھیلانا ہے۔
جو آدمی اپنے لیے زندہ رہتاہے اور دوسروں کی فکر نہیں کرتا وہ بہت چھوٹا بن کر زندہ رہتا ہے، اور بہت چھوٹا ہو کر مر جاتا ہے اور بہت زیادہ شرمساری اٹھاتا ہے۔ ایک اچھا انسان اپنے ماحول سے مل کر رہتا ہے، کیونکہ انسان کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے کہ وہ کسی مرکز کی طرف منسوب و منسلک ہوتا ہے، اس کے جذبات کا خیال رکھتا ہے اور اس کے احساسات کا خود احساس کرتا ہے۔ اسلامی تربیت میں یہی مرکز اسلامی اخوت وبھائی چارگی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو اللہ کی محبت پر قائم ہوتا ہے، اور یہ اخوت واقعتا دائرۂ تطبیق میں ایک دوسرے کی مدد، حمایت، تائید، کوشش اور دوسروں کی ضروریات کی تکمیل کی فکر کے بغیر نہیں آسکتی، اس کام کے کرنے والے خوشی اور مسرت کے لیے اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ جو شخص کسی دوسرے بندے کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ اللہ کا محبوب بندہ ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی یہ محبت
|