’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر وہ اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے(یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اورغم نہ کرو،(بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو، تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے(جنت میں موجود) ہے۔‘‘
محاسبہ انسانی نفس کی مسلسل نگرانی اور دائمی مجاہدہ کا محتاج ہے، اسی وجہ سے اسے افضل امور میں شمار کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾(العنکبوت: ۶۹)
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے، یقیناً اللہ نیکو کاروں کا ساتھی ہے۔‘‘
اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
((اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))[1]
’’مجاہدوہ ہے جو اللہ کے واسطے اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘
اس اسلوب کا ایک زبردست فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان کے باطن میں اس کے ضمیر کی تربیت کرتا ہے، اور اس کی ذات میں ذمہ داری اور انتہائی دقیق میزان پر اعمال کے وزن کیے جانے کے احساس وشعور کو پروان چڑھاتا ہے، اور یہی میزان، شرعی میزان ہے۔
محاسبۂ نفس کے عملی وقولی نمونے:
ہمارے سلف صالحین رحمہم اللہ نے محاسبہ کی اہمیت کو جانا، سمجھا اور اسے اپنے اوپر نافذ کیا، نیز دوسروں کوبھی اسے اپنانے کی ترغیب دی، اور قولی و عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے مستقل
|