وہ رسی ہے جس کے اردگرد وہ چکر لگاتا رہتا ہے، اور اس کا ایمان اسی طرف اسے کھینچ لاتا ہے جس پر اس کا اعتماد ہوتا ہے۔
لہٰذا جس کے پاس صبر نہیں اس کے پاس ایمان نہیں، اور اگر کچھ ایمان ہے بھی تو حد درجہ ضعیف ہے، ایسا شخص ایک کنارے(کھڑا) ہو کر(بے یقینی کے ساتھ) اللہ کی عبادت کرتا ہے، اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتا ہے، اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتا ہے، اس نے تو دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا ہے، اور اس نے دونوں جہاں کے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔
خوش بختوں کو بہترین زندگی ان کے صبر کی وجہ سے نصیب ہوتی ہے، اور وہ شکر کی وجہ سے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں، اپنے صبر وشکر کے دونوں بازوؤں کے درمیان جنات نعیم ہیں اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل وکرم والاہے۔‘‘[1]
صبر اختیار کرنے سے انسان کی قوت ارادی میں مضبوطی آتی ہے، اور وہ جسم ومادہ کی بندگی سے آزاد ہو کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف چل پڑتا ہے، اور اپنے ارادہ، افکار، تصورات، معاملات اور اخلاق کو متحقق کرتا چلا جاتا ہے۔
(ب) ....تواضع و خاکساری:
یہ کریمانہ اخلاق آدمی کی اندرونی حقیقت کی خبر دیتا ہے اور غیر سے اس کے تعلقات ومعاملات کے وقت ظاہر ہوتا ہے، بالخصوص جب کہ وہ غیر علم یا عمر یا سماجی مرتبہ میں کم ترہو، اور چونکہ حکمت مومن کی گمشدہ پونجی ہے وہ جہاں کہیں بھی اسے پائے دوسروں سے اس کا زیادہ حق داراور دوسروں کے بالمقابل اسے حاصل کرلینے کا زیادہ سزاوار ہے۔ اس کے حصول سے اسے کوئی بھی نفسی عوائق اور معاشرتی موانع باز نہیں رکھ سکتے، اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے شر یعنی فخروغرور، تکبر وخود پسندی اور تعریف وخود ستائی وغیرہ
|