حصول تعلیم کی رسوائی برداشت کی تو مطلوب کو پاکر سرخرو ہوا۔‘‘[1]
حضرت امام شعبی رحمہ اللہ سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کو اتنا سارا علم کہاں سے حاصل ہوا؟ جواب دیا:
’’اعتماد ویقین رکھنا چاہیے، دور دراز کا سفر کرنا چاہیے، اونٹوں جیسا صبر اپنانا چاہیے اور کوے کی طرح صبح تڑکے نکل جانا چاہیے۔‘‘
صبر کرنے والے کے کامیابی سے ہمکنار ہونے پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴾(المؤمنون: ۱۱۱)
’’میں نے آج انہیں ان کے صبر کا بدلہ دے دیا ہے کہ وہ خاطر خواہ اپنی مراد کو پہنچ چکے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ (ابراہیم: ۵)
’’بلاشبہ ہر ایک صبرو شکر کرنے والے کے لیے اس(ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں۔‘‘
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جب ایمان کے دو نصف ہیں، نصف صبر اور نصف شکر، تو ہر اس شخص کے لیے جو اپنے نفس کو نصیحت کرے، اس کی نجات چاہے، اور اس سعادت و نیک بختی کو ترجیح دے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دونوں بنیادی امور میں کوتاہی نہ کرے، بلکہ اپنے آپ کو ان دونوں طریقوں کے مابین ڈھالے رکھے، تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے خیرالفریقین کی معیت عطا کرے....صبر مومن کی
|