گے، جبکہ لوگوں میں ایسے ایسے جلیل القدر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے انہیں چھوڑدیا اور میں تنہااصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے اور پوچھنے لگا، جب کسی آدمی کے پاس کسی حدیث کا پتہ چلتا اور میں اس کے گھر قیلولہ کے وقت پہنچتا تو اس کے دروازہ پر اپنی چادر کا تکیہ بنا لیتا اور پڑا رہتا، ہوا چلتی اور مٹی مجھے ڈھانپ لیتی (لیکن میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے کے لیے یونہی پڑا رہتا) جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے دیکھتے تو کہتے! اے چچا زادۂ رسول! کونسی ضرورت آپ کو یہاں کھینچ کر لائی ہے؟ آپ نے مجھے کیوں نہیں بلایا، میں خود آجاتا(آپ نے کیوں زحمت کی؟) میں ان سے کہتا: (غرض میری ہے اس لیے) میرا ہی آنا زیادہ مناسب تھا۔ پھر میں اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پوچھتا....حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصاری صحابی نے جیتے جی مجھے دیکھ لیا کہ لوگ میرے اردگرد ہیں اور سوال کر رہے ہیں (اور میں ان کو جواب دے رہا ہوں ) یہ منظر دیکھ کر اس انصاری صحابی نے کہا! یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقلمند نکلا۔[1]
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں ہر اس شخص کے لیے عبرت اور نصیحت ہے جو طویل تربوی راستہ کے حاشیہ پرست، کاہل اور بے فکر پڑا ہوا ہو، نیز اس میں سبق ہے ہر مربی اور متربی(تربیت دینے اور لینے والے) کے لیے جو اس کا پھل توڑنا چاہتا ہو، یا وہ لوگ جو سفر کے آغاز ہی میں تھک جاتے ہیں یا جو منزل مقصود تک پہنچنا محال سمجھتے ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس مفہوم کی تائید میں فرمایا ہے :
’’جس شخص نے حصول تعلیم کی ذلت، حقارت اور عجزوانکساری پر صبر نہیں کیا اس کی پوری عمر جہالت کی گمراہی میں گزرے گی، اور جس شخص نے صبر کیا وہ دنیا آخرت میں سرخرو رہے گا‘‘ اس مفہوم کا ایک اثر اس طرح وارد ہوا ہے کہ’’تو نے
|