Maktaba Wahhabi

197 - 255
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴾ (السجدہ: ۲۴) ’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مارزق عبد خیرا، ولا أوسع من الصبر)) [1] ’’کسی بندہ کو صبر سے زیادہ بہتر اور فراخی نہیں دی گئی ہے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: ((أَفْضَلُ الْاِیْمَانِ الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَۃُ۔))[2] ’’افضل ایمان صبر اور سماحت (فراخ دلی) ہے۔‘‘ صبر اور یقین سے ہی دینی پیشوائی حاصل ہوتی ہے، جب ہم سلف صالحین کے حالات و واقعات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اتنے بلند درجات و مراتب تک مکارم اخلاق ہی سے پہنچے تھے۔ ترجمان القرآن اور حبر الامت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنے صبر وثبات کا واقعہ بیان کرتے ہیں جس کے سبب وہ اپنے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفقہ فی الدین کی دعا کے حقدار ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا: اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بہت زیادہ تعدا د میں ہیں چلیے ہم ان سے(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کے متعلق) پوچھیں اور سوال کریں، تو انہوں نے کہا کہ اے ابن عباس تم پر تعجب ہے کیا تم سمجھ رہے ہو کہ آئندہ لوگ تمہارے محتاج ہوں
Flag Counter