حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ایک اس جانب واضح اشارہ موجود ہے کہ شخصی تربیت بغیر صبروتحمل متحقق ہو ہی نہیں سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا () قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا () وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا () قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا () قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ﴾ (الکہف: ۶۶، ۷۰)
’’موسیٰ نے اس سے کہا کہ(کیا میں اس شرط پر) آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں گے جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟ اس نے کہا، آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکتے اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ؟ موسیٰ نے جواب دیا، اچھا اگر آپ میرے ساتھ ہی چلنے پر اصرار کرتے ہیں تو یاد رہے! کسی چیز کی نسبت مجھ سے کچھ نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکرہ نہ کروں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس علم کے جاننے کی شدید خواہش تھی جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کے لیے خاص کر رکھا تھا، لیکن اس علم کے جاننے کے لیے ان کے مابین(صبر وتحمل کی) جو شرط تھی وہ فوت ہوگئی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام اسے نہیں جان سکے، اسی بنیاد پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ہماری خواہش تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں کے واقعہ کی جانکاری دیتا۔‘‘[1]
تعلیم وتربیت وغیرہ میں مرتبۂ کمال کا حصول صبح وشام میں نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے لیے صبر ویقین اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
|