اس(علم آخرت) کی افضیلت صرف علوم دنیویہ پر ہی منحصر نہیں، بلکہ اللہ کے بارے علم کا حصول روزہ، نماز اور تسبیح و دعا وغیرہ نفلی عبادات سے کئی وجہ سے افضل ہے جو (بقول علامہ بدرالدین ابن جماعہ،۶۳۹ھ، ۷۳۳ھ) مندرجہ ذیل ہیں :
الف: علم کا فائدہ علم والے اور دیگر تمام لوگوں کے لیے عام ہے، اور بدنی نوافل کے فوائد صرف اس کے ادا کرنے والے پر موقوف ہیں۔
ب: علم اپنے علاوہ باتوں کو بھی درستگی عطا کرتا ہے، عبادتیں علم کی محتاج ہوتی ہیں، لیکن علم عبادتوں پر موقوف نہیں ہے۔
ج: علم کا سلسلہ علم والے کے لیے اس کی موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے، جبکہ نوافل کا سلسلہ باقی نہیں رہتا۔
د: علم کی بقا سے شریعت کو حیات ملتی ہے اور ملت کے آثار کی حفاظت ہوتی ہے۔
ہ: علم کے معاملے میں غیر کے بالمقابل علم والے کی اطاعت واجب ہے۔[1]
۳۔ علم شرعی کی ضرورت:
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے جو علم اخروی چھوڑ کر اس دنیائے فانی کے علوم کی طرف بالکلیہ پھر جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک شخص اپنے مال کی بڑھوتری، اپنے معاشی امورو معاملات کے استحکام اور اپنی دنیا کی اصلاح و سدھار میں منہک ہوتا ہے، اور اپنے اس دین سے ناواقف ہوتا ہے جو اس کے کام کا نگہبان اوراس کی فلاح ونجاح کا ضامن ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ () يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ () أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا
|