امام غزالی اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں علم آخرت اور علوم دنیویہ کا بالترتیب علم فقہ اور علم طب کی صورت میں نہایت دلچسپ موازنہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’معلوم ہو کہ دونوں علوم کے درمیان برابری ناممکن ہے،بلکہ دونوں کے درمیان نمایاں فرق ہے، علم فقہ تین طریقے سے اس علم طب سے بلند پایہ ہے:
اول یہ ہے: علم فقہ شرعی علم ہے جو نبوت سے مستفاد ہے، برخلاف علم طب کے کہ وہ علم شرعی نہیں ہے۔
دوم یہ کہ: راہ آخرت کا مسافر خواہ مریض ہو خواہ تندرست کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں، جبکہ علم طب کے محتاج صرف مریض لوگ ہوتے ہیں اوران کی تعداد کم ہوتی ہے۔
سوم یہ کہ: علم فقہ راہ آخرت کے علم کا پڑوسی ہے کیونکہ وہ اعضاء بدنیہ کے عمل پر دھیان رکھتا ہے اور ان کا منبع دل کی صفتیں ہیں۔‘‘[1]
بے شک جملہ علوم پر آخرت کے علم کی حقیقی افضلیت کا اثبات دیگر علوم کی اہمیت اور تمام مسلمانوں کو اس کی ضرورت کو ختم نہیں کردیتا، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہر مکلف مسلمان خواہ اس کے پاس جو علم بھی ہو اس خیر کو ترقی دینے سے خود کو محروم نہ کرلے۔ کیونکہ’’جو اس مفید علم سے محروم ہوگیا وہ چار ایسی چیزوں میں پڑ گیا جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، اور اس کا علم اس کے لیے وبال بن جائے گا، اس کے خلاف حجت بنے گا اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے بھی محروم ہوگا، کیونکہ اس کا دل اپنے رب کے لیے خوفزدہ نہیں ہوا، اور اس کا نفس دنیا سے سیراب نہیں ہوا بلکہ اسے اس کی حرص وطلب بڑھتی گئی۔ اس کی دعا مقبول نہیں ہوئی کیونکہ اس نے اپنے رب کے احکامات کی پاسداری نہیں کی، اور نہ اپنے رب کے غیظ وغضب کے کاموں سے پرہیز کیا۔‘‘[2]
|