’’اس حدیث میں عام لوگوں پر علماء کی فضیلت کا کھلا بیان موجود ہے اور دیگر علوم پر دینی بصیرت طلبی کی فضیلت کا بھی کھلا بیان ہے۔‘‘[1]
دیگر تمام علوم پر دینی علوم کی فضیلت کے سبب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی(عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ) کے لیے دعاء فرمائی تھی کہ:
((اَللّٰہُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلُ۔))[2]
’’اے اللہ! تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور انہیں قرآن کے معانی و مفہوم سکھا دے۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سینہ سے لگا کر دعا فرمائی:
((اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ۔))[3]
’’اے اللہ! تو انہیں قرآن سکھا دے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سیّدناابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا دی تھی:
((اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ وَتَأْوِیْلَ الْکِتَابَ۔))[4]
’’اے اللہ! تو ان کو حکمت و دانائی اور قرآن کی تفسیر کا علم سکھا دے۔‘‘
اس دعا میں ’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن اور’’حکمت‘‘ سے مراد سنت ہے۔‘‘[5]
نیزیہ بات سب کو معلوم ہے کہ اگر کوئی علم کتاب و سنت سے بہتر ہوتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا زاد بھائی کے لیے اس کی بھی دعا فرماتے، معلوم ہوا کہ آخرت کا علم جملہ دنیاوی علوم سے بہتر وافضل ہے۔
|