Maktaba Wahhabi

78 - 255
نعمت سے بہرہ مند ہو، اور اس کا نفس اپنے ارد گرد کے بھائیوں کو نہ یاد رکھے، چنانچہ وہ اپنے مال کے ذریعہ سوسائٹی وسماج کی تعمیر میں حصہ لینے میں جلدی کرتاہے، اوراپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسلام اور مسلمانوں کے واسطے کچھ پیش کردیا ہے۔ آدمی اچنبھے میں پڑجائے گا جب وہ سنے گا کہ منحرف و برگشتہ جمعیتیں اور گمراہ ادارے اپنے افراد کے لیے کس قدر فراخ دلی سے کام لیتے ہیں کہ اسلامی جمعیتیں اور ادارے اسے جانتے بھی نہیں، بلکہ وہ اپنے کام اتنے منظم طور پر چلاتے ہیں کہ ان سے بڑے سے بڑا شر جنم لیتا ہے، اور اس سے ایسے خبیث فتنے کا پھل لگتا ہے جس کی خرابی و نقصان کے وہی لوگ ہی شکار ہوتے ہیں جو اسلامی شریعت کے پابند ہوتے ہیں۔[1] آزادیٔ ملکیت کی تطبیق کا نادر نمونہ: اگر ہم بطور مثال کوئی ایسا شخص ڈھونڈنا چاہیں جس نے خود مالی قید وبند سے آزاد کرلیا ہو اور وہ ان آیتوں کا عملی تطبیق بن چکا ہو توہمیں پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور ان کی قولی وعملی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہ ایک برجستہ قرآنی صورت کا اقتباس ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنے والے تھے، آپ کثرت وقت کی مقدار کو مدنظر رکھے بغیر اللہ کی رضا کے لیے عطیہ دیتے تھے، اور جو بھی آپ سے سوال کرتا اسے کم و بیش عطا فرماتے تھے۔ آپ کا عطیہ فقر کی پرواہ کیے بغیر ہوا کرتا تھا، خیر خیرات میں آپ سب سے زیادہ سخی واقع ہوئے تھے۔ آپ کا ہاتھ آندھی سے زیاد تندوتیز تھا۔ جب کوئی محتاج آپ کے سامنے آجاتا تو آپ خود سے زیادہ اسے لباس و خوراک کے معاملے میں ترجیح
Flag Counter