چھین سکتا ہے اوردوسرے کو دے سکتا ہے، تو اس کا یہ احساس ہمیشہ اسے اللہ کی نعمتوں کی ضرورت کا احساس دلاتا رہے گا اور وہ شخص اطاعت کے ذریعہ اللہ کی طرف متوجہ رہے گا اور اپنا مال اللہ کی رضا میں اللہ کے پاس موجود دائمی نعمت کے حصول میں لگاتار کوشش کرتے رہے گا۔
اسلام نے لوگوں کو جو آزادیٔ ملکیت دی ہے وہ انہیں صرف ملکی پابندی کی ذلت سے آزادیٔ نہیں مہیا کرتی، بلکہ انہیں جائز امور میں صرف کرنے کے مواقع اور روز روشن کی طرح عیاں شریعت کے سائے میں مال کی فراوانی کے مواقع بھی عطا کرتی ہے، اور اس آزادی کے بہت سے فوائد ہیں۔
سید قطب کہتے ہیں :
’’شخصی ملکیت کے حقوق کا تحفظ فطرت کے ساتھ چلنے کے علاوہ محنت اور جزا کے درمیان عدل قائم کرتا ہے، اور انسانی نفس کے اصل میلان و رحجان سے متفق بھی ہے، ایسا میلان ورحجان جسے اسلام سماجی نظام قائم کرنے میں ملحوظ رکھتا ہے، اور قوم کی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک شخص کو زندگی کو پروان چڑھانے میں کافی محنت صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے، علاوہ ازیں اسے عزت وشرافت، مستقل مزاجی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کے لیے اپنی شخصیت کے اظہار کا موقع حاصل ہوتا ہے تا کہ اس طرح وہ بھی دین کے امین بن جائیں، منکرات کے سامنے اڑجائیں، حاکم کا احتساب کریں اور اگر ان کے حکام کے ہاتھ میں ان کا رزق بھی ہو تو اس کی بندش کے خوف کے بغیر اس کو نصیحت بھی کریں۔‘‘[1]
اسلامی تربیت اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ انسانی فطرت اور مباح ملکیت کی آزادی میں توافق اور اتحاد قائم رہے۔
مسلم جماعت کی طرف منسوب مسلمان شخص اپنے لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ خود مال کی
|