ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور اس کے لیے کہ شاید وہ ڈرجائیں، سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے، یعنی جب وہ، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ۔‘‘
آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کرنے والوں کی نجات کا ذکر کیا، اور جنہوں نے اس کام میں غفلت برتی تھی ان کے بارے میں خاموش رہا، اور قاعدہ ہے: ’’الجزا من جنس العمل‘‘بدلہ کام کے مطابق ہوا کرتا ہے(یعنی ان کو تاہ پسندوں کا انجام خود ظاہر ہے)
۳۔ اجر عظیم کے حصول کا شوق:
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء ورسل علیہم السلام جو راہ چلے وہ اللہ کی رضا وخوشنودی اور جنت کو پہنچتی ہے، کیونکہ وہ ایسے حضرات ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور رب کی رضا کی راہ پر چلنے والے تمام لوگ انہی حضرات انبیاء ورسل علیہم السلام کی اقتدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کو جو ہدایت دی تھی انہی میں سے یہ ہدایت بھی ہے کہ اللہ نے انہیں ایک عظیم کام یعنی منہج اور مقصد کی یکسانیت کی طرف دعوت یعنی بلاشرکت غیرے صرف ایک اللہ پر ایمان اور تمام قسم کے معبود ان باطلہ کا انکار ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾(النحل: ۳۶)
’’اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔‘‘
یہ انتہائی عظمت کی بات ہوگی کہ امت کا ہر فرد خیر کی دعوت اور امر بالمعروف اور نہی عن
|