پڑھتے ہو:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ﴾(المائدہ: ۱۰۵)
’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کو لازم پکڑو، جب تم ہدایت پر ہو توگمراہ لوگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘
لیکن تم اس کا مفہوم غلط لیتے ہو اور میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
’’ لوگ جب ظالم کو(ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں (یعنی ظلم سے نہ روکیں ) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔‘‘[1]
یقیناً دوسروں کی حالت کی فکر کرنے کی ذمہ داری ادا کر کے اور ان کی خیر خواہی کر کے اللہ تعالیٰ کے یہاں عذر پیش کرنے کا موقع ہے جو عنقریب ہر انسان سے اس کا علم کے تقاضے کے مطابق عمل کے بارے میں سوال کرے گا، اور کیا اس شخص نے دوسروں کی فکر کرنے اور اسے نصیحت کرنے کی ذمہ داری ادا کی ہے؟ یا اس نے اس میں سستی و کاہلی کی ہے؟
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (164) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (165) فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴾ (الاعراف: ۱۶۴، ۱۶۶)
’’اور جب ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا
|