وَثِقْتُ بِکَ وَفَرِقْتُ مِنَ النَّاسِ۔))[1]
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے سوال کرے گا، یہاں تک کہ یہ بھی سوال کردے گا کہ بندے! تو نے جب ایک غلط اور ناپسندیدہ کام دیکھا تھا تو تو نے اس پر نکیر کیوں نہیں کیا؟ پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو اپنی طرف سے دل میں دلیل ڈال دے گا، تب بندہ جواب میں کہے گا: اے رب! میں نے تجھ پر یقین کیا اور میں لوگوں سے خائف تھا۔‘‘
جب ہر شخص اپنی اصلاح نفس اور بھلائی کرنے اور اس کی دعوت دینے کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے آمادہ رہے تو کسی بگڑنے والے کا بگاڑ، اور برباد ہونے والے کی بربادی اگرچہ وہ انتہائی قریبی شخص کیوں نہ ہو کچھ نقصان دہ نہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ (المائدہ: ۱۰۵)
’’اے ایمان والو! فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں، اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے، پھر وہ تم سب کو بتلادے گا جو تم سب کرتے تھے۔‘‘
اس آیت میں دوسروں کی فکر چھوڑنے کی دعوت نہیں دی گئی ہے، بلکہ اس میں انسان کی ایسی حالت کا بیان ہے جس کے آس پاس کا ماحول بگڑ گیا ہو اور وہ شخص حتی المقدور اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے ساتھ اوامر الٰہی کی ادائیگی اور منہیات کے ترک پر ثابت قدم رہ جائے۔ اس آیت کا یہی مفہوم اس امت کے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو الہام ہوا تھا جسے انہوں نے کھڑے مجمع عام میں حمدو ثناء کے بعد بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’لوگو تم یہ آیت
|