باز پرس ہوگی۔‘‘
چونکہ ہر شخص اس حکم کا مخاطب ہے اس لیے سب کا اس کام میں داخل ہونا اور سب کا اس ربانی اطاعت کی جو اسے اللہ اور اس کی رضا سے قریب کرتی ہے تنفیذ کرنا واجب ہے۔
۲۔ عذاب الٰہی سے نجات:
فصل اوّل میں یہ بات گزر چکی ہے کہ انسان کا ٹھکانہ جنت یا جہنم، آج مسلمان شخص اپنے رب کی رحمت اور اس کی جنت کی کامیابی کی امید رکھتا ہے اور اس کے عذاب اور اس کی آگ میں جھلسنے سے ڈرتا ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴾ (آل عمران: ۱۸۵)
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔‘‘
لہٰذا حقیقی آزادی یہی ہے کہ بندہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے، اور جنت میں داخل ہوجائے، دوسروں کی فکر بھی اسی کامیابی تک پہنچنے کی ایک راہ ہے، جبکہ اس پہلو میں سستی و کوتاہی آدمی و سماج دونوں کی ہلاکت و بربادی تک پہنچا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے:
﴿ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ (الانفال: ۲۵)
’’اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دین
|