Maktaba Wahhabi

124 - 255
اس آیت اور حدیث کے معنی میں غور کرنے سے ہمیں دوباتیں معلوم ہوتی ہیں : اوّل یہ کہ وہی شخص کامیاب کہا جائے گا جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتا ہے، یعنی اسے صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسروں کی بھی فکر ہے۔ دوئم یہ کہ ایمان کے بڑھنے و زیادہ ہونے اور منکر کے مٹنے اور اصلاح ودرستگی کے عام ہونے کے لیے غلطیوں کی اصلاح کا ذمہ داری کے احساس کے درمیان بہت ہی خاص لگاؤ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی جب اپنی تربیت آپ کرے گا تو یہ عمل اسے دوسروں کی تربیت کی فکر پر بھی آمادہ کرے گا۔ مذکورہ بالا آیت و حدیث کے مفہوم کے اجتماع اور اس بات سے کہ ہر مسلمان اپنے خالق کی طرف سے اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کامیاب انسان بنے، ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دوسروں کی فکر کرنا ایک شرعی فریضہ ہے جو ہر مسلمان کی گردن میں آویزاں ہے، مزید برآں وہ شخصی و ذاتی تربیت کا ایک اہم بنیادی اصول بھی ہے، ہماری اس رائے کی تائید مندرجہ ذیل آیت و حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم: ۶) ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہے اور پتھر، سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٍ عَنْ رَّعِیَّتِہِ۔)) ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت کے بارے میں
Flag Counter