Maktaba Wahhabi

214 - 255
جب آدمی کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا صالح ساتھی آخرت میں بھی اس کے ساتھ رہے گا اور باذن اللہ ایک دوسرے کی شفاعت بھی کریں گے تو اس کی صحبت پر اس کا قدم مزید مضبوط ہوجائے گا، اور یہ ایک ایسی منفعت ہے جو اسے دنیا وآخرت میں ملتی رہے گی۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ﴾ (الزخرف: ۶۷) ’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ﴾ (الغافر: ۱۸) ’’ظالموں کا نہ کوئی ولی دوست ہوگا، نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔‘‘ اصول وضوابط اور احتیاطی تدابیر: رہبر کے انتخاب کے وقت ذاتی تربیت کے اسلوب کے طرح کچھ اصول وضوابط اور احتیاطی تدابیر بھی ہیں جنہیں برتنا ضروری ہے، اور وہ مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔ مستوی اوّل کے رہبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر ایک مستوی کے رہبر کے اقوال وافعال میں کچھ کو اپنایا جائے گا اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے گا، کیونکہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور ان کے سوا ہر شخص سے خطا کا صد ور ہوتا رہتا ہے۔ ۲۔ ہر رہبر کے اعمال واحوال اور اقوال کے کتاب وسنت سے قرب وبعد کا پتہ لگانے کے لیے انہیں جانچا جائے گا، پھر جو کتاب وسنت کے مطابق ہوگا اسے لیا جائے گا، اور جو مطابق نہیں ہوگا اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ۳۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ(مستوی اول کے علاوہ) باقی تینوں مستوی کے رہبر کی شخصیت میں فرد کی شخصیت بالکل فنا ہوجائے یا جذب ہوجائے، جیسا کہ بعض صوفیہ فرقوں میں موجود ہے، اور بالخصوص فطر امور جیسے چلنے پھرنے، کلام کرنے اور لباس وغیرہ میں،
Flag Counter