Maktaba Wahhabi

228 - 255
ایسے ہیں جن سے ایک مسلمان کا لاعلم اور جاہل رہ جانا قابل قبول عذر نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ انہیں سیکھے اور لوگوں کے ساتھ اختلاط کے بغیر ایسا ممکن نہیں، اور جس کو اللہ تعالیٰ نے علم اور دین کی سمجھ عطا کی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علم کو نہ چھپائے اور نہ اس پر روک لگائے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم اور فائدہ رسانی کے مقصد سے معاشرہ کے افراد سے ملتا جلتا رہے۔ (ب).... تادیب اور تادب یعنی ادب آموزی اور ادب پذیری: تادب اور تادیب دو ایسے لفظ ہیں جن کا معنی تعلیم اور تعلم کے معنی سے خاص ہے، تأدب(ادب پذیری) کی تعریف کرتے ہوئے امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کسر نفسی کے لیے لوگوں کو سختیوں پر راضی ہونا اور تکالیف جھیلنے کے لیے مجاہدہ کرنا ہی تأدب ہے۔‘‘[1] اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ نفس کو اخلاق فاضلہ سے متصف ہونے کے لیے تیار کیا جائے جو دوسروں سے میل جول اور ان کے کثرت تعامل سے ظاہر ہوتا ہے اور اخلاق سے دوسروں کے لیے قربانی، ایثار، تعاون اور ناپسندیدہ امر سے در گزر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تادیب(ادب آموزی) کا مطلب ہے دوسروں کو ادب و تہذیب سکھانا، اور یہ مقام ایک معلم کا اپنے طلبہ کے ساتھ حسن سلوک، ایک مربی کا اپنے مریدوں کے ساتھ برتاؤ اورایک عالم اور شیخ کا معاشرہ کے افراد کے ساتھ لگاؤ جاننے کے لیے زیادہ مناسب ہے، (ان کے لیے بہتر ہے) کہ وہ ان سے کثرت اختلاط اور اپنے اوقات کی مشغولیت پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کریں اور اس امت کے سلف صالحین کے اسوہ کو اپنے سامنے رکھیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی دعوت اور لوگوں کو خیر کی طرف بلانے میں صرف کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter