افضل ترین عبادت کا صحیح معیار
اگر کوئی شخص سوال کرے کہ افضیلت عبادت کا صحیح پیمانہ کیا ہے؟ اور وہ کون سے نیکی و تقریب کے افضل کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں تا کہ آدمی اسے کرسکے؟ اور بندگی کے مقامات میں تخصیص و ترجیح کے لائق زیادہ موزوں ونفع بخش کیا کام ہے؟ تو اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے اور وہ یہ کہ:
’’ ہر وقت اور ہرحال میں سب سے افضل عبادت ایسا عمل اس وقت اور حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دینا ہے، اور اس وقت اور عمل اور مقتضائے حال کے مطابق کام میں لگے رہنا ہے۔‘‘[1]
ہر زمان ومکان کے حسب حال کچھ عبادتیں ہوتی ہیں جو دوری عبادتوں کے مقابلہ میں افضل ہوا کرتی ہیں، مثلاً اگر کوئی خانۂ کعبہ کے پاس ہو، تو اس کے لیے تلاوت قرآن کے لیے بیٹھنے سے بہتر طواف کرنا ہے، اور جسے وقوف عرفہ میسر ہو اس کے لیے وہ کسی دیگر مجلس ذکر میں شرکت سے بہتر ہے۔ جہاد کے وقت میں جہاد سب سے افضل عمل ہے، خواہ اس کے لیے رات کے تہجد کا وظیفہ اور دن کا روزہ چھوڑنا پڑجائے، بلکہ امن واطمینان کی حالت میں فرض نماز کے اتمام کو بھی چھوڑنا پڑے، اسی طرح مہمان کی موجودگی میں اس کی عزت وتکریم وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی بیوی بچوں وغیرہ اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی سے بہتر ہے۔ اور رات کے آخری پہر یا سحری کے وقت میں بیوی اور بستر سے علیحدگی اور نماز تلاوت میں مشغولیت افضل عمل ہے۔ جہالت و تاریکی کی گھنگھور گھٹائیں پھیلنے کے وقت میں دعوت الی اللہ اور وعظ و نصیحت افضل عمل ہے اگرچہ اس کے سبب خویش و اقارب بالخصوص دور کے رشتہ داروں کی ملاقات و زیارت میں کوتاہی واقع ہوجائے۔
|