’’جو شخص اللہ کی راہ میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کرے گا اسے پکارا جائے گا اے اللہ کے بندے! یہ بہت بہتر ہے، پس جو شخص نمازیوں میں سے ہوگا اسے باب الصلوٰۃ(نمازیوں کے مخصوص دروازے) سے پکارا جائے گا، جو جہاد کرنے والوں میں سے ہوگا اسے باب الجہاد سے پکارا جائے گا، جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا اسے باب الریان سے پکارا جائے گا، اور جو صدقہ کرنے والوں میں سے ہوگا اسے بالصدقہ سے پکارا جائے گا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جس کو ان دروازوں میں سے(کسی ایک دروازے سے) پکارا جائے گا؛ اس کے لیے کوئی نقصان اور خسارہ نہیں (کیونکہ مقصود جنت میں داخل ہونا ہے) لیکن کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جس کو ان کو تمام دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تو بھی انہی میں سے ہوگا۔‘‘
امام نوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کے عمل و اطاعت میں اس کام کا غلبہ ہوگا(اسے یہ مرتبہ حاصل ہوگا)۔‘‘ [1]
امام مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’پرانے عبادت گزاروں کے حالات چند گونہ تھے، بعض لوگوں پر تلاوت غالب تھی،یہاں تک کہ روزانہ ایک یادو یا تین ختم قرآن کرلیتے تھے، کچھ لوگ بکثرت تسبیح وتہلیل کیا کرتے تھے، کچھ لوگ کثرت سے نمازیں پڑھتے تھے، اور بعض حضرات کثرت سے طواف بیت اللہ کرتے تھے۔‘‘[2]
|