﴿ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ () إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ () قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ (41) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴾ (الحجر: ۳۹، ۴۲)
’’(شیطان نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی، سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لیے گئے ہیں، ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے، میرے بندوں پر تجھے غلبہ نہیں لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں۔‘‘
لہٰذا اللہ کا مخلص بندہ اللہ کی عبادت میں اللہ کی توحید بجا لاتا ہے، اور شیطان کے لیے ایسی کوئی راہ یا میدان نہیں چھوڑتا جس سے وہ اس تک پہنچ سکے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کا بنیادی سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور اسی وجہ سے ہر وہ شخص جو صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی نہیں کرے گا، لازمی طور پر وہ غیر کا بندہ ہوگااور دوسرے کی بندگی کر رہا ہوگا، اور شرک کر رہا ہوگا، بنی آدمی میں کوئی تیسری قسم نہیں ہے، بلکہ یا تو موحد ہوگا یا مشرک یا دونوں کی آمیزش کر رہا ہوگا، جیسا کہ ملتوں کے تبدیل کرنے والے نصاریٰ اور ان کے ہم مثل اسلام کی طرف منسوب بہت سے گمراہ شدہ حضرات۔‘‘[1]
لہٰذا انسان کو خود متعین کرلینا چاہیے کہ وہ اللہ کا بندہ بن کر رہے گا یا شیطان کا، اسی کے ہاتھ میں ہے اپنے مقصد وجود کی تکمیل، پھر اس کے انجام کا تعین۔
۴:.... انجام
بے شک کوئی بھی مخلوق خواہ اس کی مدت بقاء جس قدر بھی ہو، اور اس کی عمر خواہ کتنی ہی
|